Female Tattoos,Sexy Women Tattoos,Girls Tattoos,Beautiful Tattoos,Women Tattoos Galleries,Sexy Men Tattoos,Ladies Tattoos,Nude Female with Tattoos

Sunday, October 31, 2010

Hostal mein parhna

Hostal mein parhna (in urdu fonts)
[color=blue]ہم نے کالج میں تعلیم تو ضرور پائی اور رفتہ رفتہ بی اے بھی پاس کرلیا، لیکن اس نصف صدی کے دوران میں جو کالج میں گزارنی پڑی۔ ہاسٹل میں داخل ہونے کی اجازت ہمیں صرف ایک ہی دفعہ ملی۔ خدا کا یہ فضل ہم پر کب اور کس طرح ہوا؟ یہ سوال ایک داستان کا محتاج ہے۔ جب ہم نے انٹرنس پاس کیا تو مقامی اسکول کے ہیڈماسٹر صاحب خاص طور پر مبارکباد دینے کے ليے آئے۔ قریبی رشتہ داروں نے دعوتیں دیں۔ محلے والوں میں مٹھائی بانٹی گئی اور ہمارے گھر والوں پر یک لخت اس بات کا انکشاف ہوا کہ وہ لڑکا جسے آج تک اپنی کوتاہ بینی کی وجہ سے ایک بےکار اور نالائق فرزند سمجھتے رہے تھے، دراصل لامحدود قابلیتوں کا مالک ہے۔ جس کی نشوونما پر بےشمار آنے والی نسلوں کی بہبودی کا انحصار ہے۔ چنانچہ ہماری آئندہ زندگی کے متعلق طرح طرح کی تجویزوں پر غور کیا جانے لگا۔ تھرڈ ڈویژن میں پاس ہونے کی وجہ سے یونیورسٹی نے ہم کو وظیفہ دینا مناسب نہ سمجھا۔ چونکہ ہمارے خاندان نے خدا کے فضل سے آج تک کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا اس ليے وظیفے کا نہ ملنا خصوصاً ان رشتہ داروں کے ليے جو رشتے کے لحاظ سے خاندان کے مضافات میں بستے تھے، فخرومباہات کا باعث بن گیا۔ اور "مرکزی رشتے داروں" نے تو اس کو پاس وضع اور حفظ مراتب سمجھ کر ممتحنوں کی شرافت ونجابت کو بے انتہا سراہا۔ بہرحال ہمارے خاندان میں فالتوں روپے کی بہتات تھی۔ اس ليے بلاتکلف یہ فیصلہ کرلیا گیا کہ نہ صرف ہماری بلکہ ملک وقوم اور شاید بنی نوع انسان کی بہتری کے ليے یہ ضروری ہےکہ ایسے ہونہار طالب علم کی تعلیم جاری رکھی جائے۔ اس بارے میں ہم سے بھی مشورہ کیا گیا۔ عمر بھر میں اس سے پہلے ہمارے کسی معاملے میں ہم سے رائے طلب نہ کی گئی تھی لیکن اب تو حالات بہت مختلف تھے۔ اب تو ایک غیرجانبدار اور ایماندار مصنف یعنی یونیورسٹی ہماری بیدار مغزی کی تصدیق کرچکی تھی۔ اب بھلا ہمیں کیونکہ نظرانداز کیا جاسکتا تھا۔ ہمارا مشورہ یہ تھا کہ ہمیں فوراً ولایت بھیج دیا جائے۔ ہم نے مختلف لیڈروں کی تقریروں سے یہ ثابت کیا کہ ہندوستان کا طریقہ تعلیم بہت ناقص ہے۔ اخبارات میں سے اشتہار دکھا دکھا کر یہ واضح کیا کہ ولایت میں کالج کی تعلیم کے ساتھ ساتھ فرصت کے اوقات میں بہت تھوڑی تھوڑی فیسیں دے کر بیک وقت جرنلزم، فوٹو گرافی، تصنیف وتالیف، دندان سازی، عینک سازی، ایجنٹوں کا کام غرض یہ کہ بےشمار مفید اور کم خرچ بالانشیں پیشے سیکھے جاسکتے ہیں۔ اور تھوڑے عرصے کے اندر انسان ہرفن مولا بن سکتا ہے۔ لیکن ہماری تجویز کو فوراً رد کردیا گیا۔ کیونکہ ولایت بھیجنے کے ليے ہمارے شہر میں کوئی روایات موجود نہ تھیں۔ ہمارے گردونواح میں کسی کا لڑکا ابھی تک ولایت نہ گیا تھا اس لئے ہمارے شہر کی پبلک وہاں کے حالات سے قطعاً ناواقف تھی۔ اس کے بعد پھر ہم سے رائے طلب نہ کی گئی اور ہمارے والد، ہیڈماسٹر صاحب اور تحصیلدار صاحب ان تینوں نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ ہمیں لاہور بھیج دیا جائے۔ جب ہم نے یہ خبر سنی تو شروع شروع میں ہمیں سخت مایوسی ہوئی۔ لیکن جب ادھر اُدھرکے لوگوں سے لاہور کے حالات سنے تو معلوم ہوا کہ لندن اور لاہور میں چنداں فرق نہیں۔ بعض واقف کار دوستوں نے سینما کے حالات پر روشنی ڈالی۔ بعض نے تھیٹروں کے مقاصد سے آگاہ کیا۔ بعض نے ٹھنڈی سڑک وغیرہ کے مشاغل کو سلجھا کر سمجھایا۔ بعض نے شاہدرے اور شالامار کی ارمان انگیز فضا کا نقشہ کھینچا۔ چنانچہ جب لاہور کا جغرافیہ پوری طرح ہمارے ذہن نشین ہوگیا تو ثابت یہ ہوا کہ خوشگوار مقام ہے۔ اور اعلیٰ درجے کی تعلیم حاصل کرنے کے ليے بےحدموزوں۔ اس پر ہم نے اپنی زندگی کا پروگرام وضع کرنا شروع کردیا۔ جس میں لکھنے پڑھنے کو جگہ تو ضرور دی گئی، لیکن ایک مناسب حد تک، تاکہ طبعیت پر کوئی ناجائز بوجھ نہ پڑے۔ اور فطرت اپنا کام حسن وخوبی کے ساتھ کرسکے۔ لیکن تحصیلدار صاحب اور ہیڈماسٹر صاحب کی نیک نیتی یہیں تک محدود نہ رہی۔ اگر وہ ایک عام اور مجمل سا مشورہ دے دیتے کہ لڑکے کو لاہور بھیج دیا جائے تو بہت خوب تھا۔ لیکن انہوں نے تو تفصیلات میں دخل دینا شروع کردیا۔ اور ہاسٹل کی زندگی اور گھر کی زندگی کا مقابلہ کرکے ہمارے والد پر یہ ثابت کردیا کہ گھر پاکیزگی اور طہارت کا ایک کعبہ اور ہاسٹل گناہ ومعصیت کا ایک دوزخ ہے۔ ایک تو تھے وہ چرب زبان، اس پر انہوں نے بےشمار غلط بیانیوں سے کام لیا۔ چنانچہ گھر والوں کو یقین سا ہوگیا کہ کالج کا ہاسٹل جرائم پیشہ اقوام کی ایک بستی ہے۔ اور جو طلباء باہر کے شہروں سے لاہور جاتے ہیں اگر ان کی پوری طرح نگہداشت نہ کی جائے تو وہ اکثر یاتوشراب کے نشے میں چوُر سڑک کے کنارے کسی نالی میں گرے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ یا کسی جوئے خانہ میں ہزارہا روپے ہار کر خودکشی کرلیتے ہیں یا پھر فرسٹ ائیر کا امتحان پاس کرنے سے پہلے دس بارہ شادیاں کربیٹھے ہیں۔ چنانچہ گھر والوں کو یہ سوچنے کی عادت پڑ گئی کہ لڑکے کو کالج میں تو داخل کیا جائےلیکن ہاسٹل میں نہ رکھا جائے۔ کالج ضرور مگر ہاسٹل ہرگز نہیں۔ کالج مفید۔ مگر ہاسٹل مضر۔ وہ بہت ٹھیک مگر یہ ناممکن۔ جب انہوں نے اپنی زندگی کا نصب العین ہی یہ بنالیا کہ کوئی ایسی ترکیب سوچی جائے جس سے لڑکا ہاسٹل کی زد سے محفوظ رہے تو کسی ترکیب کا سوجھ جانا کیا مشکل تھا۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ چنانچہ ازحد غوروخوض کے بعد لاہور میں ہمارے ایک ماموں دریافت کئے گئے۔ اور ان کو ہمارا سرپرست بنادیا گیا۔ میرے دل میں ان کی عزت پیدا کرنے کے ليے بہت سے شجروں کی ورق گردانی سے مجھ پر یہ ثابت کیا کہ وہ واقعی میرے ماموں ہیں۔ مجھے بتایا گیا کہ جب میں ایک شیرخوار بچہ تھا تو وہ مجھ سے بےانتہا محبت کیا کرتے تھے۔ چنانچہ فیصلہ یہ ہوا کہ ہم پڑھیں کالج میں رہیں ماموں کے گھر۔ اس سے تحصیل علم کا جو ایک ولولہ سا ہمارے دل میں اُٹھ رہا تھا وہ کچھ بیٹھ سا گیا۔ ہم نے سوچا یہ ماموں لوگ اپنی سرپرستی کے زعم میں والدین سے بھی زیادہ احتیاط برتیں گے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہمارے دماغی اور روحانی قویٰ کو پھلنے پھولنے کا موقع نہ ملے گا۔ اور تعلیم کا اصلی مقصد فوت ہوجائے گا۔ چنانچہ وہی ہوا جس کا ہمیں خوف تھا۔ ہم روزبروز مرجھاتے چلے گئے۔ اور ہمارے دماغ پر پھپھوندی سی جمنے لگی۔ سینما جانے کی اجازت کبھی کبھار مل جاتی تھی لیکن اس شرط پر کہ بچوں کو بھی ساتھ لیتا جاؤں۔ اس صحبت میں، میں بھلا سینما سے کیا اخذ کرسکتا تھا۔ تھیٹر کے معاملے میں ہماری معلومات اندرسبھا سے آگے بڑھنے نہ پائیں۔ تیرنا ہمیں نہ آیا کیونکہ ہمارے ماموں کا ایک مشہور قول ہے کہ ڈوبتا وہی ہے جو تیراک ہو جسے تیرنا نہ آتا ہو وہ پانی میں گھستا ہی نہیں۔ گھر پر آنے جانے والے دوستوں کا انتخاب ماموں کے ہاتھ میں تھا۔ کوٹ کتنا لمبا پہنا جائے، اور بال کتنے لمبے رکھے جائیں۔ ان کے متعلق ہدایات بہت کڑی تھیں۔ ہفتے میں دوبار گھر خط لکھنا ضروری تھا۔ سگریٹ غسل خانے میں چھپ کر پیتے تھے۔ گانے بجانے کی سخت ممانعت تھی۔ یہ سپاہیانہ زندگی ہمیں راس نہ آئی۔ یوں تو دوستوں سے ملاقات بھی ہوجاتی تھی۔ سیر کو بھی چلے جاتے تھے۔ ہنس بول بھی لیتے تھے لیکن وہ جو زندگی میں ایک آزادی ایک فراخی، ایک وارفتگی ہونی چاہئے وہ ہمیں نصیب نہ ہوئی۔ رفتہ رفتہ ہم اپنے ماحول پر غور کرنا شروع کیا کہ ماموں جان عموماً کس وقت گھر میں ہوتے ہیں، کس وقت باہر جاتے ہیں، کس کمرے سے کس کمرے تک گانے کی آواز نہیں پہنچ سکتی، کس دروازے سے کمرے کے کس کونے میں جھانکنا ممکن ہے۔ گھر کا کون سادروزہ رات کے وقت باہر سے کھولا جاسکتا ہے، کون سا ملازم موافق ہے، کون سا نمک حلال ہے۔ جب تجربے اور مطالعے سے ان باتوں کا اچھی طرح اندازہ ہوگیا تو ہم نے اس زندگی میں بھی نشوونما کے ليے چند گنجائشیں پیدا کرلیں۔ لیکن پھر بھی ہم روز دیکھتے تھے کہ ہاسٹل میں رہنے و الے طلباء کس طرح اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر زندگی کی شاہراہ پر چل رہے ہیں۔ ہم ان کی زندگی پر رشک کرنے لگے۔ اپنی زندگی کو سدھارنے کی خواہش ہمارے دل میں روزبروز بڑھتی گئی۔ ہم نے دل سے کہا والدین کی نافرمانی کسی مذہب میں جائز نہیں۔ لیکن ان کی خدمت میں درخواست کرنا، ان کے سامنے اپنی ناقص رائے کا اظہار کرنا، ان کو صحیح واقعات سے آگاہ کرنا میرا فرض ہے۔ اور دنیا کی کوئی طاقت مجھے اپنے فرض کی ادائیگی سے باز نہیں رکھ سکتی۔ چنانچہ جب گرمیوں کی تعطیلات میں، میں وطن کو واپس گیا تو چند مختصر مگر جامع اور مؤثر تقریریں اپنے دماغ میں تیار رکھیں۔ گھروالوں کو ہاسٹل پر سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ وہاں کی آزادی نوجوانوں کے ليے ازحد مضر ہوتی ہے۔ اس غلط فہمی کو دور کرنے کے ليے ہزارہا واقعات ایسے تصنیف کئے جن سے ہاسٹل کے قواعد کی سختی ان پر اچھی طرح روشن ہوجائے۔ سپرنٹنڈنٹ صاحب کے ظلم وتششد کی چند مثالیں رقت انگیز اور ہیبت خیز پیرائے میں سنائیں۔ آنکھیں بند کرکے ایک آہ بھری اور بیچارے اشفاق کا واقعہ بیان کیا کہ ایک دن شام کے وقت بیچارا ہاسٹل کو واپس آرہا تھا۔ چلتے چلتے پاؤں میں موچ آگئی۔ دو منٹ دیر سے پہنچا۔ صرف دو منٹ۔ بس صاحب اس پر سپرنٹنڈنٹ صاحب نے فوراً تار دے کر اس کے والد کو بلوایا۔ پولیس سے تحقیقات کرنے کو کہا۔ اور مہینے بھر کے ليے اس کا جیب خرچ بند کروادیا۔ توبہ ہے الہیٰ! لیکن یہ واقعہ سن کر گھر کے لوگ سپرنٹنڈنٹ صاحب کے مخالف ہوگئے۔ ہاسٹل کی خوبی ان پر واضح نہ ہوئی۔ پھر ایک دن موقع پا کر بیچارے محمود کا واقعہ بیان کیا کہ ایک دفعہ شامت اعمال بیچارا سینما دیکھنے چلا گیا۔ قصور اس سے یہ ہوا کہ ایک روپے والے درجے میں جانے کی بجائے دو روپے والے درجے میں چلا گیا۔ بس اتنی سی فضول خرچی پر اسے عمر بھر کو سینما جانے کی ممانعت ہوگئی ہے۔ لیکن اس سے بھی گھر والے متاثر نہ ہوئے۔ ان کے روئے سے مجھے فوراً احساس ہوا کہ ایک روپے اور دو روپے کی بجائے آٹھ آنے اور ایک روپیہ کہنا چاہئے تھا۔ ان ہی ناکام کوششوں میں تعطیلات گزر گئیں اور ہم نے پھر ماموں کی چوکھٹ پر آکر سجدہ کیا۔ اگلی گرمیوں میں جب ہم پھر گھر گئے تو ہم نے ایک نیا ڈھنگ اختیار کیا۔ دو سال تعلیم پانے کے بعد ہمارے خیالات میں پختگی سی آگئی تھی پچھلے سال ہاسٹل کی حمایت میں جو دلائل ہم نے پیش کی تھیں، وہ اب ہمیں نہایت بودی معلوم ہونے لگی تھیں۔ اب کے ہم نے اس موضوع پر ایک لیکچر دیا کہ جو شخص ہاسٹل کی زندگی سے محروم ہو اس کی شخصیت نامکمل رہ جاتی ہے۔ ہاسٹل سے باہرشخصیت پنپنے نہیں پاتی۔ چند دن تو ہم اس پر فلسفیانہ گفتگو کرتے رہے۔ اور نفسیات کے نقطہ نظر سے اس پر بہت کچھ روشنی ڈالی۔ لیکن ہمیں محسوس ہوا کہ بغیر مثالوں کے کام نہ چلے گا۔ اور جب مثالیں دینے کی نوبت آئی، تو ذرا وقت محسوس ہوئی۔ کالج کے جن طلبا کے متعلق میرا ایمان تھا کہ وہ زبردست شخصیتوں کے مالک ہیں، ان کی زندگی کچھ ایسی نہ تھی کہ والدین کے سامنے بطور نمونے کے پیش کی جاسکے۔ ہر وہ شخص جسے کالج میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملاہے، جانتا ہے کہ "والدینی اغراض" کے ليے واقعات کو ایک نئے اور اچھوتے پیرائے میں بیان کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے لیکن اس پیرائے کا سوجھ جانا الہام اور اتفاق پر منحصر ہے۔ بعض روشن خیال بیٹے اپنے والدین کو اپنے حیرت انگیز اوصاف کا قائل نہیں کرسکتے اور بعض نالائق سے نالائق طالب علم والدین کو کچھ اس طرح مطمئن کردیتے ہیں کہ ہر ہفتے ان کے نام منی آرڈر چلا آتا ہے۔ بناداں آں چناں روزی رساند کہ دانا اندراں حیراں بماند جب ہم ڈیڑھ مہینے تک شخصیت اور ہاسٹل کی زندگی پر اس کا انحصار، ان پر مضمونوں پر وقتاًفوقتاً اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہے تو ایک والد نے پوچھا: "تمہارا شخصیت سے آخر مطلب کیا ہے؟" میں تو خدا سے یہی چاہتا تھا کہ وہ مجھے عرض ومعروض کا موقع دیں۔ میں نے کہا۔ "دیکھئے نا۔ مثلاً ایک طالب علم ہے، وہ کالج میں پڑھتا ہے۔ اب ایک تو اس کا دماغ ہے دوسرا اس کا جسم ہے۔ جسم کی صحت بھی ضروری ہے۔ اور دماغ کی صحت تو ضروری ہے ہی۔ لیکن ان کے علاوہ ایک اور بات بھی ہوتی ہے جس سے آدمی کو پہچانا جاتا ہے۔ میں اس کو شخصیت کہتا ہوں۔ اس کا تعلق نہ جسم سے ہوتا ہے نہ دماغ سے، ہوسکتا ہے کہ ایک آدمی کی جسمانی صحت بالکل خراب ہو اور اس کا دماغ بھی بالکل بیکار ہو، لیکن پھر بھی اس کی شخصیت۔۔۔ نہ خیر دماغ تو بیکار نہیں ہونا چاہئے ورنہ انسان خبطی ہوتا ہے لیکن پھر بھی اگر ہو بھی۔ تو بھی۔۔۔ گویا شخصیت ایک ایسی چیز ہے۔۔۔ ٹھہرئیے، میں ابھی ایک منٹ میں آپ کو بتاتا ہوں۔" ایک منٹ کی بجائے والد نے مجھے آدھ گھنٹے کی مہلت دی جس کے دوران میں وہ خاموشی کے ساتھ میرے جواب کا انتظار کرتے رہے، اس کے بعد وہاں سے اُٹھ کر چلاآیا۔ تین چار دن کے بعد مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا، مجھے شخصیت نہیں سیرت کہنا چاہئے۔ شخصیت ایک بےرنگ سا لفظ ہے۔ سیرت کے لفظ سے نیکی ٹپکتی ہے۔ چنانچہ میں نے سیرت کو اپنا تکیہ کلام بنالیا۔ لیکن یہ بھی مفید ثابت نہ ہوا۔ والد کہنے لگے۔ "کیا سیرت سے تمہارا مطلب چال چلن ہے یا کچھ اور؟" میں نے کہا "چال چلن کہہ لیجئے۔" "تو گویا دماغی اور جسمانی صحت کے علاوہ چال چلن بھی اچھا ہونا چاہئے۔" میں نے کہا۔ "بس یہی تو میرا مطلب ہے۔" "اور یہ چال چلن ہاسٹل میں رہنے سے بہت اچھا ہوجاتا ہے!" میں نسبتاً نحیف آواز سے کہا۔ "جی ہاں۔" "یعنی ہاسٹل میں رہنے والے طالب علم نماز، روزے کے زیادہ پابند ہوتے ہیں، ملک کی زیادہ خدمت کرتے ہیں ، سچ زیادہ بولتے ہیں، نیک زیادہ ہوتے ہیں۔" میں نے کہا۔ "جی ہاں"۔ کہنے لگے۔ "وہ کیوں؟" اس سوال کا جواب ایک دفعہ پرنسپل صاحب نے تقسیم انعامات کے جلسے میں نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کیا تھا، اے کاش میں نے اس وقت توجہ سے سنا ہوتا! اس کے بعد پھر سال بھر میں ماموں کے گھر میں "زندگی ہے تو خزاں کے بھی گزر جائیں کے دن۔" گاتا رہا۔ ہر سال میری درخواست کا یہی حشر ہوتا رہا لیکن میں نے ہمت نہ ہاری۔ ہر سال ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ لیکن اگلے سال گرمی کی چھٹیوں میں پہلے سے بھی زیادہ شدومد کے ساتھ تبلیغ کا کام جاری رکھتا۔ ہر دفعہ نئی نئی دلیلیں پیش کرتا، نئی نئی مثالیں کام میں لاتا۔ جب شخصیت اور سیرت

0 comments:

Post a Comment

 
Template By:blogger templates - free 7